’آدمی کئی طریقوں سے مر سکتا ہے‘ یہ کوئٹہ ڈگری کالج کے سابق طالبِ علم انتیس سالہ نصراللہ بنگلزئی نے ملٹری انٹیلیجینس کے ایک کرنل کو بتایا۔ نصراللہ بنگلزئی اپنے گم شدہ چچا علی اصغر بنگلزئی کی رہائی کے لیے کافی عرصے تک مہم چلاتا رہا تھا۔ پانچ برسوں تک عدالتوں میں اپیلوں، احتجاجوں اور کاوشوں کے بعد اسے کوئٹہ کنٹونمنٹ میں ملٹری انٹیلیجینس کے افسران سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا۔ ملاقات میں سات یا آٹھ اور افسران بھی موجود تھے، جو تمام میجر یا کیپٹن تھے۔ ’اگر میرے چچا زندہ ہیں تو میں ہمت نہیں ہاروں گا۔ کوئی شخص بھی اپنے لوگوں کو ایسے نہیں چھوڑ سکتا۔ ہو سکتا ہے میرے چچا طبعی وجوہات کی بنا پر فوت ہو گئے ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ لوگوں نے ان پر تشدد کرکے انھیں مار ڈالا ہو۔ میں آپ سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ان کی قبر تک لے جائیں۔ میں قبر کھودوں گا، ان کی شناخت کروں گا، فاتحہ پڑھوں گا اور پھر کبھی آپ کو تنگ نہیں کروں گا۔‘
IT HAS BEEN PROVED THAT PAKISTANI INTELLIGENCE AGENCIES ARE HEINOUS CRIMINALS IN THE WORLD PARTICULARLY THEY HAVE JOINED ANOTHER PARTNER BY THE NAME OF THE CHINA AFTER IRAN. PAKISTAN SHOULD NOT BE EXISTED IN THE WORLD IF THE INTERNATIONAL COMMUNITY IS CONCERN ABOUT THEIR SECURITY.INTERNATIONAL COMMUNITY SHOULD INTERVENE IN THE BALUCHISTAN , AND U.N.O, SHOULD SEND THE FACT FINDING MISSION IN BALUCHISTAN.
ReplyDelete